جو رہین تغیرات نہیں
موت ہے موت وہ حیات نہیں
کچھ بہاروں ہی پہ نہیں موقوف
میری وحشت کو بھی ثبات نہیں
مسئلے حسن کے بھی نازک ہیں
عشق ہی کے معاملات نہیں
آج سے دل یہ بزم ہے ان کی
یہ حریم تصورات نہیں
شاخ گل ہو کہ گردن مینا
میرے ہاتھوں میں ان کا ہات نہیں
کعبہ و دیر کو ثبات ہے کب
میکدے کو اگر ثبات نہیں
حسن سے کائنات ہے ساغرؔ
عشق بنیاد کائنات نہیں

غزل
جو رہین تغیرات نہیں
ساغر نظامی