جو رہا یوں ہی سلامت مرا جذب والہانہ
مجھے خود کرے گا سجدہ ترا سنگ آستانہ
رہ حق کے حادثوں کا نہ سنا مجھے فسانہ
تری رہبری غلط تھی کہ بہک گیا زمانہ
میں جہان ہوش و عرفاں بہ لباس کافرانہ
بہ حجاب پارسائی تو ہمہ شراب خانہ
تجھے یاد ہے ستم گر کوئی اور بھی فسانہ
وہی ذکر آب و دانہ وہی فکر طائرانہ
مری زندگی کا محور یہی سوز و ساز ہستی
کبھی جذب والہانہ کبھی ضبط عارفانہ
ترا جذبۂ رفاقت مرا ساتھ کیسے دے گا
کہ میں زندۂ کہستاں تو ہلاک آشیانہ
مری بزم فکر میں ہے یہی کشمکش ازل سے
کبھی چھا گئی حقیقت تو کبھی جم گیا فسانہ
وہ بجائے آہ فاروقؔ ابھی واہ کر رہے ہیں
ابھی درد سے ہے خالی یہ نوائے عاشقانہ

غزل
جو رہا یوں ہی سلامت مرا جذب والہانہ
فاروق بانسپاری