جو راہ چلنا ہے خود ہی چن لو یہاں کوئی راہبر نہیں ہے
یہی حقیقت ہے بات مانو تمہیں ابھی کچھ خبر نہیں ہے
کسی کو سادہ دلی کا بدلہ ملا ہی کب ہے جو اب ملے گا
وفا بھی دنیا میں ایک شے ہے مگر وہ اب معتبر نہیں ہے
نہ جانے کب رخ ہوا بدل دے بھڑک اٹھیں پھر وہ بجھتے شعلے
ہراس ہے وہ فضا پہ طاری کہیں بھی محفوظ گھر نہیں ہے
جو چاہتے ہیں چمن کو باٹیں وہ کیسے باٹیں گے فصل گلشن
بہے گا غنچوں کا خون کتنا انہیں تو اس کا بھی ڈر نہیں ہے
جو پشت پہ وار کر رہے ہیں کہو کہ اب سامنے سے آئیں
جسے وہ غافل سمجھ رہے ہیں وہ اس قدر بے خبر نہیں ہے
نہ کامیابی ملے گی تم کو ہمیں مٹانے کی کوششوں میں
جھکے گا جو ظالموں کے آگے وہ حق پرستوں کا سر نہیں ہے
جو بانٹتے ہیں متاع ہستی انہیں یہ افشاںؔ ذرا بتا دو
جو میں نے مانگا ہے حق ہے میرا مجھے یہ کہنے میں ڈر نہیں ہے
غزل
جو راہ چلنا ہے خود ہی چن لو یہاں کوئی راہبر نہیں ہے
ارجمند بانو افشاں