EN हिंदी
جو پوچھتے ہیں کہ یہ عشق و عاشقی کیا ہے | شیح شیری
jo puchhte hain ki ye ishq-o-ashiqi kya hai

غزل

جو پوچھتے ہیں کہ یہ عشق و عاشقی کیا ہے

امجد نجمی

;

جو پوچھتے ہیں کہ یہ عشق و عاشقی کیا ہے
وہ جانتے نہیں مقصود زندگی کیا ہے

ضمیر پاک خیال بلند ذوق لطیف
بس اور اس کے سوا جوہر خودی کیا ہے

وفا کی آڑ میں کیا کیا ہوئی جفا ہم پر
جو دوستی یہی ٹھہری تو دشمنی کیا ہے

بجا ہے فرط جنوں نے ہمیں کیا رسوا
جمال یار میں آخر یہ دل کشی کیا ہے

وفور شوق کی مایوسیاں ارے توبہ
دل تباہ میں اب آرزو رہی کیا ہے

اگر نہ جرم محبت کی یہ سزا ہوتی
تو بات بات پہ ہم سے یہ بے رخی کیا ہے

نہ سمجھو تم مری عرض نیاز کو شکوہ
میں جانتا ہوں تقاضائے بندگی کیا ہے

عطا کیا تھا جو ذوق نمود اس دل کو
تو ہر قدم پہ یہ رنگ شکستگی کیا ہے

گریز کیا میں کروں ناصحو کی صحبت سے
جہاں نہ کچھ ہو یہ صحبت وہاں بری کیا ہے

وفا سے اور نہ ترک وفا سے آپ ہیں خوش
مجھے بتائیے پھر آپ کی خوشی کیا ہے

فریب ہستیٔ موہوم کھا رہا ہوں ہنوز
مجھے خبر ہے حقیقت یہاں مری کیا ہے

جو گامزن ہیں سر جادۂ طلب نجمیؔ
وہ جانتے نہیں دنیا میں بے بسی کیا ہے