EN हिंदी
جو پوچھا منہ دکھانے آپ کب چلمن سے نکلیں گے | شیح شیری
jo puchha munh dikhane aap kab chilman se niklenge

غزل

جو پوچھا منہ دکھانے آپ کب چلمن سے نکلیں گے

مضطر خیرآبادی

;

جو پوچھا منہ دکھانے آپ کب چلمن سے نکلیں گے
تو بولے آپ جس دن حشر میں مدفن سے نکلیں گے

جلے گا دل تمہیں بزم عدو میں دیکھ کر میرا
دھواں بن بن کے ارماں محفل دشمن سے نکلیں گے

اکٹھے کر کے تیری دوسری تصویر کھینچوں گا
وہ سب جلوے جو چھن چھن کر تری چلمن سے نکلیں گے

سیہ پوشاک دوش ناز پر بکھری ہوئی زلفیں
مرے ماتم کی شرکت کو بڑے جوبن سے نکلیں گے

ہمیں پروا نہیں اس کی قیامت لاکھ بار آئے
نہ تم مدفن پہ آؤ گے نہ ہم مدفن سے نکلیں گے

ترے دامن سے بدلا لیں گے ظالم خون ناحق کا
وہ فوارے لہو کے جو مری گردن سے نکلیں گے

یہی رشتہ جنون عاشقی کا ہے تو کچھ دن میں
مرے تار گریباں یار کے دامن سے نکلیں گے

ہزاروں حسن والے اس زمیں میں دفن ہیں مضطرؔ
قیامت ہوگی جب یہ سب کے سب مدفن سے نکلیں گے