جو پوچھا میں نے یاں آنا مرا منظور رکھیے گا
تو سن کر یوں کہا یہ بات دل سے دور رکھیے گا
بہت روئیں یہ آنکھیں اور پڑی دن رات روتی ہیں
اب ان کو چشم بھی کیجے گا یا ناسور رکھیے گا
جو پردہ بزم میں منہ سے اٹھاتے ہو تو یہ کہہ دو
کہ پھر یاں شمع کے جلنے کا کیا مذکور رکھیے گا
دیا دل ہم نے تم کو اور تو اب کیا کہیں لیکن
یہ ویرانہ تمہارا ہے اسے معمور رکھیے گا
نظیرؔ اب تو دل و جاں سے تمہارا ہو چکا بندہ
میاں اپنے غلاموں میں اسے مشہور رکھیے گا
غزل
جو پوچھا میں نے یاں آنا مرا منظور رکھیے گا
نظیر اکبرآبادی