EN हिंदी
جو پوچھا میں نے یاں آنا مرا منظور رکھیے گا | شیح شیری
jo puchha maine yan aana mera manzur rakhiyega

غزل

جو پوچھا میں نے یاں آنا مرا منظور رکھیے گا

نظیر اکبرآبادی

;

جو پوچھا میں نے یاں آنا مرا منظور رکھیے گا
تو سن کر یوں کہا یہ بات دل سے دور رکھیے گا

بہت روئیں یہ آنکھیں اور پڑی دن رات روتی ہیں
اب ان کو چشم بھی کیجے گا یا ناسور رکھیے گا

جو پردہ بزم میں منہ سے اٹھاتے ہو تو یہ کہہ دو
کہ پھر یاں شمع کے جلنے کا کیا مذکور رکھیے گا

دیا دل ہم نے تم کو اور تو اب کیا کہیں لیکن
یہ ویرانہ تمہارا ہے اسے معمور رکھیے گا

نظیرؔ اب تو دل و جاں سے تمہارا ہو چکا بندہ
میاں اپنے غلاموں میں اسے مشہور رکھیے گا