جو پنہاں تھا وہی ہر سو عیاں ہے
یہ کہیے لن ترانی اب کہاں ہے
جو پہنچے ہاتھ زنجیروں کو توڑیں
گرچہ پاؤں اپنا درمیاں ہے
چمک لعل بدخشاں کی مٹا دے
ترے ہونٹوں پہ ایسا رنگ پاں ہے
تجھے کہتا ہوں سن او وحشت دل
وہاں لے چل جہاں وہ دل ستاں ہے
وہ ہوں نازک مزاج اے ہم صفیرو
رگ گل مجھ کو خار آشیاں ہے
موا جاتا ہوں میں طرز نگہ سے
ترے لب کی مسیحائی کہاں ہے
بلا کر اس سے دو باتیں تو سن لے
یہ کہتے ہیں کہ گویاؔ خوش بیاں ہے
غزل
جو پنہاں تھا وہی ہر سو عیاں ہے
گویا فقیر محمد