EN हिंदी
جو پلائے وہ رہے یا رب مے و ساغر سے خوش | شیح شیری
jo pilae wo rahe yarab mai-o-saghar se KHush

غزل

جو پلائے وہ رہے یا رب مے و ساغر سے خوش

ریاضؔ خیرآبادی

;

جو پلائے وہ رہے یا رب مے و ساغر سے خوش
خوش رہے پیر مغاں جاتے ہیں اس کے در سے خوش

سنگ خوں آلودہ کو سمجھے ہیں یہ گلشن کا پھول
توڑ کر سر تیرے دیوانے ہیں کیا پتھر سے خوش

اس گلی کے رہنے والے بھی مزے کے لوگ ہیں
فتنۂ محشر سے خوش ہنگامۂ محشر سے خوش

یوں گلے سے کیوں لگاتا سخت جانوں کو کوئی
ہم گلے مل کر ہوئے کیا کیا ترے خنجر سے خوش

خم کے خم بھر بھر کے جائیں کم نہ ہو مے بوند بھر
زاہد و ہم ہیں تمہارے چشمۂ کوثر سے خوش

خون پانی ایک میرا ہو گیا ان کے لیے
اپنے زخم دل سے خوش ہوں اپنے چشم تر سے خوش

دل میں گھر کرتی ہے وہ کافر مژہ کافر نگہ
میں ترے پیکاں سے خوش ہوں میں ترے نشتر سے خوش

خانہ باغ غیر میں تھے یا کھلے میدان میں
وہ کہیں سے آئے ہوں آئے ہیں کچھ باہر سے خوش

میکدے میں آ کے پیتے ہیں پلاتے ہیں ریاضؔ
کہہ رہی ہے وضع ان کی ہیں یہ اپنے گھر سے خوش