EN हिंदी
جو نہایت مہرباں ہے اور نہاں رکھا گیا | شیح شیری
jo nihayat mehrban hai aur nihan rakkha gaya

غزل

جو نہایت مہرباں ہے اور نہاں رکھا گیا

رخشندہ نوید

;

جو نہایت مہرباں ہے اور نہاں رکھا گیا
ماں کی صورت میں اسی کا ترجماں رکھا گیا

ان کناروں سے کنارے ہو نہ پائے ہمکنار
خام مٹی کے گھڑے کو راز داں رکھا گیا

ہجر کو اس واسطے شہرت زیادہ مل گئی
آرزوئے وصل کو بے حد گراں رکھا گیا

خاک سے اٹھ کر کہیں آباد ہونا ہے ہمیں
اس لیے اتنا کشادہ آسماں رکھا گیا

لگ نہیں سکتی ہے رخشندہؔ نوید اس کے گلے
خود مرے پتھر بدن کو درمیاں رکھا گیا