جو نہایت مہرباں ہے اور نہاں رکھا گیا
ماں کی صورت میں اسی کا ترجماں رکھا گیا
ان کناروں سے کنارے ہو نہ پائے ہمکنار
خام مٹی کے گھڑے کو راز داں رکھا گیا
ہجر کو اس واسطے شہرت زیادہ مل گئی
آرزوئے وصل کو بے حد گراں رکھا گیا
خاک سے اٹھ کر کہیں آباد ہونا ہے ہمیں
اس لیے اتنا کشادہ آسماں رکھا گیا
لگ نہیں سکتی ہے رخشندہؔ نوید اس کے گلے
خود مرے پتھر بدن کو درمیاں رکھا گیا

غزل
جو نہایت مہرباں ہے اور نہاں رکھا گیا
رخشندہ نوید