جو نظر آتا نہیں دیوار میں در اور ہے
ان ستم گاروں کے پیچھے اک ستم گر اور ہے
جو نظر آتا نہیں رستے کا پتھر اور ہے
میں نہیں ہوں میرے اندر ایک خود سر اور ہے
ان فضاؤں میں مگر میرا گزر ممکن نہیں
میری منزل اور ہے میرا مقدر اور ہے
ہم ہیں طوفان حوادث میں ہمیں معلوم ہے
تم سمجھ سکتے نہیں ساحل کا منظر اور ہے
بوجھ تیری بے وفائی کا اٹھا لیتا مگر
اک تمنا تجھ سے بڑھ کر دل کے اندر اور ہے
کچھ تعلق ہی نہیں جس کا مرے حالات سے
میرے محسن تیرا اک احسان مجھ پر اور ہے
آپ سے مل کر مجھے محسوس یہ ہونے لگا
یہ مرا پیکر نہیں ہے میرا پیکر اور ہے
میری بربادی کا باعث صرف ناداری نہیں
ایک سامان اذیت اس سے بڑھ کر اور ہے
روشنی پہلے بھی ہوتی تھی مگر سلطان رشکؔ
آفتاب صبح آزادی کا منظر اور ہے
غزل
جو نظر آتا نہیں دیوار میں در اور ہے
سلطان رشک