جو نرم لہجے میں بات کرنا سکھا گیا ہے
وہ شخص امدادؔ مجھ کو کندن بنا گیا ہے
محبتوں کے نگر سے آیا تھا جو پیامی
گرا کے دیوار نفرتوں کی چلا گیا ہے
میں وہ مسافر ہوں جس کا کوئی نہیں ٹھکانا
یہ نارسائی کا زخم مجھ کو رلا گیا ہے
مصالحت کا پڑھا ہے جب سے نصاب میں نے
سلیقہ دنیا میں زندہ رہنے کا آ گیا ہے
یہاں کے کربل میں کوئی تشنہ دہن نہیں ہے
وہ فوج نہر فرات پر کیوں بٹھا گیا ہے
میں اس مسافر کو یاد کر کے مطمئن ہوں
جو ڈھیر ساری دعائیں دے کے چلا گیا ہے
غزل
جو نرم لہجے میں بات کرنا سکھا گیا ہے
امداد ہمدانی