جو نام سب سے ہو پیارا اسے مکان پہ لکھ
بدن کی حد سے گزر اور اس کو جان پہ لکھ
بجا ہے کرتے ہیں پانی پہ دستخط سب لوگ
جو حوصلہ ہے تو نام اپنا آسمان پہ لکھ
تو لکھنے بیٹھا ہے میرے خلوص کا قصہ
یقین پر نہیں لکھتا نہ لکھ گمان پہ لکھ
صحیفۂ دل بیتاب کی نئی تفسیر
قلم اٹھا اور اسے وقت کی زبان پہ لکھ
سفر مدام سفر ہی تو ہے سفر کا صلہ
تو اپنا قصۂ لا سمتیت اڑان پہ لکھ
سنوار شانۂ فن سے تو زلف قوس قزح
تو زندگی کے خم و پیچ پھر کمان پہ لکھ
جو ''قل'' مسور پہ لکھتے ہیں ان کا فن ہے جدا
تو خون دل سے کوئی شعر مرتبان پہ لکھ
ہر ایک چیز یہاں پریم ہی سے ملتی ہے
یہ اشتہار کرامتؔ تو ہر دکان پہ لکھ
غزل
جو نام سب سے ہو پیارا اسے مکان پہ لکھ
کرامت علی کرامت