جو نہ مل بیٹھا ہو پھر اس سے شکایت کیسی
میں اکیلا ہی چلا ہوں تو رفاقت کیسی
خود تو آئیں گے نہیں اور بلائیں گے ہمیں
دیکھیے آپ نے ڈالی یہ روایت کیسی
میں نے چاہا تو بہت ٹوٹ کے چاہا نہ گیا
یوں بھی ٹوٹی ہے کئی بار قیامت کیسی
تم نے جینے کا مجھے حوصلہ بخشا ہے تو پھر
مجھ سے رہتے ہو گریزاں یہ سیاست کیسی
جب بچھڑنا ہی محبت کا تقاضہ ٹھہرا
پھر نگاہوں میں مری جاں یہ ندامت کیسی
غزل
جو نہ مل بیٹھا ہو پھر اس سے شکایت کیسی
جاوید منظر