EN हिंदी
جو نہ کرنا تھا کیا جو کچھ نہ ہونا تھا ہوا | شیح شیری
jo na karna tha kiya jo kuchh na hona tha hua

غزل

جو نہ کرنا تھا کیا جو کچھ نہ ہونا تھا ہوا

بسمل الہ آبادی

;

جو نہ کرنا تھا کیا جو کچھ نہ ہونا تھا ہوا
چار دن کی زندگی میں کیا کہیں کیا کیا ہوا

یہ سمجھ کر ہم نہیں کہتے کسی سے راز دل
اس طرف نکلا زباں سے اس طرف چرچا ہوا

بھر کے ٹھنڈی سانس لیں بیمار نے جب کروٹیں
وہ کلیجہ تھام کر کہنے لگے یہ کیا ہوا

سنیے سنیے آتش غم سے ہوئے ہم جل کے خاک
کہیے کہیے اب کلیجہ آپ کا ٹھنڈا ہوا

میرے چہرے سے عیاں ہے دیکھ لو پہچان لو
یہ نہ پوچھو دل کا عالم دل کا نقشہ کیا ہوا