جو مشت خاک ہو اس خاکداں کی بات کرو
زمیں پہ رہ کے نہ تم آسماں کی بات کرو
کسی کی تابش رخسار کا کہو قصہ
کسی کے گیسوئے عنبر فشاں کی بات کرو
نہیں ہوا جو طلوع آفتاب تو فی الحال
قمر کا ذکر کرو کہکشاں کی بات کرو
رہے گا مشغلۂ یاد رفتگاں کب تک
گزر رہا ہے جو اس کارواں کی بات کرو
یہی جہان ہے ہنگامہ زار سود و زیاں
یہیں کے سود یہیں کے زیاں کی بات کرو
اب اس چمن میں نہ صیاد ہے نہ ہے گلچیں
کرو تو اب ستم باغباں کی بات کرو
غزل
جو مشت خاک ہو اس خاکداں کی بات کرو
عبد المجید سالک