جو ملنے آتا ہے مل کر جدا بھی ہوتا ہے
وہ خوش مزاج ہے لیکن خفا بھی ہوتا ہے
وہ بھول بیٹھے نشہ کر کے اپنی دولت کا
نشہ کوئی بھی ہو اک دن ہوا بھی ہوتا ہے
کبھی کبھی ہی سہی جیب بھاری ہوتی ہے
کبھی کبھی تو یہ بندہ خدا بھی ہوتا ہے
میں اس حسین کو یہ بات کیسے سمجھاؤں
جو بہترین ہے اس سے سوا بھی ہوتا ہے
تمہاری بات کا میں نے برا کہاں مانا
جو اپنا ہوتا ہے اس سے گلا بھی ہوتا ہے
کسی مریض سے کہنا کہ آپ اچھے ہیں
یہ بات کہنے کا مطلب دوا بھی ہوتا ہے
یہ بات میرے سوا جانتا نہیں کوئی
کہ اس کی بات میں گہرا نشہ بھی ہوتا ہے
کبھی جو گالیاں دے ماں تو یہ سمجھ لینا
کہ اس کی گالی کا مطلب دعا بھی ہوتا ہے

غزل
جو ملنے آتا ہے مل کر جدا بھی ہوتا ہے
حبیب کیفی