جو مل گیا ہے یہاں جلوۂ خیالی ہے
یہ بات ہم نے محبت میں آزما لی ہے
عجیب سلطنت عشق میں نظام ملا
جو بادشاہ نظر آتا ہے اک سوالی ہے
تمہاری یاد بڑھی اور دل ہوا روشن
یہ ایک شمع اندھیرے نے خود جلا لی ہے
ہنر کی آگ جلائی ہے خاک سے اس نے
کمال اس کا ہی ہے میری بے کمالی ہے
سدا یہ سوچتا ہوں اس کا فیض کیا لکھوں
کہ میرا دوست بھی اور آدمی مثالی ہے
کبھی دیا بھی ہے لمحہ کسی کو چاہت کا
تو زندگی نے یہ فرصت کبھی چرا لی ہے
کرایہ داری وسیلہ ہے اپنے جینے کا
تم آنا چاہو تو دل کا مکان خالی ہے
کبھی تو جھانکو ذرا اس کی آگ کے پیچھے
یہ آدمی کہ جو ظاہر میں لاابالی ہے

غزل
جو مل گیا ہے یہاں جلوۂ خیالی ہے
تاجدار عادل