جو میری آخری خواہش کی ترجماں ٹھہری
وہ ایک غارت جاں ہی متاع جاں ٹھہری
یہ غم نہیں کہ مرا آشیاں رہا نہ رہا
خوشی یہ ہے کہ یہیں برق بے اماں ٹھہری
وہ تیری چشم فسوں ساز تھی کہ موج کرم
وہیں وہیں پہ میں ڈوبا جہاں جہاں ٹھہری
کبھی تھے اس میں مری زندگی کے ہنگامے
وہ اک گلی جو گزر گاہ دشمناں ٹھہری
وہی تھی زیست کا حاصل وہی تھی لطف حیات
وہ ایک ساعت رنگیں جو بے کراں ٹھہری
میں اس کو بھول بھی جاؤں تو کس طرح ناصرؔ
جو شرط خاص مرے ان کے درمیاں ٹھہری
غزل
جو میری آخری خواہش کی ترجماں ٹھہری
ناصر زیدی