جو میرے بس میں ہے اس سے زیادہ کیا کرنا
سفر تو کرنا ہے اس کا ارادہ کیا کرنا
بس ایک رنگ ہے دل میں کسی کے ہونے سے
اب اپنے آپ کو اس سے بھی سادہ کیا کرنا
جب اپنی آگ ہی کافی ہے میرے جینے کو
تو مہر و ماہ سے بھی استفادہ کیا کرنا
ترے لبوں کے سوا کچھ نہیں میسر جب
سو فکر ساغر و ساقی و بادہ کیا کرنا
تمام کشتیاں ساحل پہ ہیں ابھی ٹھہری
ابھی سے ان کو جلانے کا وعدہ کیا کرنا
غزل
جو میرے بس میں ہے اس سے زیادہ کیا کرنا
ذیشان ساحل