EN हिंदी
جو مزے آج ترے غم کے عذابوں میں ملے | شیح شیری
jo maze aaj tere gham ke azabon mein mile

غزل

جو مزے آج ترے غم کے عذابوں میں ملے

امام اعظم

;

جو مزے آج ترے غم کے عذابوں میں ملے
ایسی لذت کہاں ساقی کی شرابوں میں ملے

ساری دنیا سے نہیں ان کو ہے پردہ لیکن
وہ ملے جب بھی ملے مجھ کو نقابوں میں ملے

تیری خوشبو سے معطر ہے زمانہ سارا
کیسے ممکن ہے وہ خوشبو بھی گلابوں میں ملے

زندگانی میں نصیحت نہیں کام آتی ہے
درس اخلاق فقط مجھ کو کتابوں میں ملے

میں نے پھولوں سے بھی نازک سے سوالات کیے
مجھ کو پتھر سے ہی الفاظ جوابوں میں ملے

پیار کے باب میں اب نام کہاں ہے تیرا
کوئی تحریر وفا کیسے نصابوں میں ملے

کیا پتہ کل جو بڑی شان میں گم تھا اعظمؔ
اب وہی شخص تجھے خانہ خرابوں میں ملے