جو مریض عشق کے ہیں ان کو شفا ہے کہ نہیں
اے طبیب ان کی بھی دنیا میں دوا ہے کہ نہیں
خوبرو جتنے ہیں عالم میں جفاکار ہیں سب
یاد کیا جانیں انہیں طور وفا ہے کہ نہیں
تنگ اتنا ہے زمانہ کہ چمن میں گل تک
صبح دم چاک گریباں ہی صبا ہے کہ نہیں
مری بے تابی کے احوال کو شب کے اس سے
نامہ بر تو نے زبانی بھی کہا ہے کہ نہیں
ظلم ہے یہ تو کہ دل لیجئے اور رہیے خفا
کہیں انصاف زمانے میں رہا ہے کہ نہیں
شیخ کہتے ہیں مجھے دیر نہ جا کعبہ چل
برہمن کہتے ہیں کیوں یاں بھی خدا ہے کہ نہیں
اپنے یاروں میں کوئی جا کے عدم سے نہ پھرا
کیوں محبؔ ان کی خبر لانی بجا ہے کہ نہیں
غزل
جو مریض عشق کے ہیں ان کو شفا ہے کہ نہیں
ولی اللہ محب