جو میں نے کہہ دیا اس سے مکرنے والا نہیں
کہ آسمان زمیں پر اترنے والا نہیں
میں ریزہ ریزہ ہوں لیکن نمی ابھی تک ہے
ہوائیں لاکھ چلیں میں بکھرنے والا نہیں
میں جانتا ہوں وہ اچھے دنوں کا ساتھی ہے
برے دنوں میں ادھر سے گزرنے والا نہیں
ہمارے شہر میں چہرہ نہیں رہا شاید
پڑے ہیں آئنہ خانے سنورنے والا نہیں
ترے کرم کا سزا وار میں ہوں یا دل ہے
دیا ہے تو نے وہ کاسہ جو بھرنے والا نہیں
کہاں کا خواب مسافر کی آنکھ میں عازمؔ
کہ بہتے پانی میں منظر ٹھہرنے والا نہیں
غزل
جو میں نے کہہ دیا اس سے مکرنے والا نہیں
عین الدین عازم