جو میکدے سے بھی دامن بچا بچا کے چلے
تری گلی سے جو گزرے تو لڑکھڑا کے چلے
ہمیں بھی قصۂ دار و رسن سے نسبت ہے
فقیہ شہر سے کہہ دو نظر ملا کے چلے
کوئی تو جانے کہ گزری ہے دل پہ کیا جب بھی
خزاں کے باغ میں جھونکے خنک ہوا کے چلے
اب اعتراف جفا اور کس طرح ہوگا
کہ تیری بزم میں قصے مری وفا کے چلے
ہزار ہونٹ ملے ہوں تو کیا فسانۂ دل
سنانے والے نگاہوں سے بھی سنا کے چلے
کہیں سراغ چمن مل ہی جائے گا راحتؔ
چلو اُدھر کو جدھر قافلے صبا کے چلے
غزل
جو میکدے سے بھی دامن بچا بچا کے چلے
امین راحت چغتائی