جو میکدے میں بہکتے ہیں لڑکھڑاتے ہیں
مرا خیال ہے وہ تشنگی چھپاتے ہیں
ذرا سا وقت کے سورج نے رخ جو بدلا ہے
مرے وجود پہ کچھ سائے مسکراتے ہیں
دلوں کی سمت پہ لفظوں کے سنگ مت پھینکو
ذرا سی ٹھیس سے آئینے ٹوٹ جاتے ہیں
طلسم ذات کی پھیلی ہے تیرگی اتنی
کہ وسعتوں کے اجالے سمٹتے جاتے ہیں
ستم ظریفیٔ حالات کا کرشمہ ہے
بھٹکنے والے مجھے راستے بتاتے ہیں
جنہیں حیاتؔ شعور حیات حاصل ہے
فریب دیتے نہیں ہیں فریب کھاتے ہیں
غزل
جو میکدے میں بہکتے ہیں لڑکھڑاتے ہیں
حیات وارثی