EN हिंदी
جو مال اس نے سمیٹا تھا وہ بھی سارا گیا | شیح شیری
jo mal usne sameTa tha wo bhi sara gaya

غزل

جو مال اس نے سمیٹا تھا وہ بھی سارا گیا

سید انوار احمد

;

جو مال اس نے سمیٹا تھا وہ بھی سارا گیا
وہ خواہشوں کے تصادم میں آج مارا گیا

خمار عشق کی غارت گری ہے دونوں طرف
ہماری عمر گئی اور سکوں تمہارا گیا

بپھرتی موج کے آگے یہ کس کو یاد رہا
کہاں پہ ناؤ گئی اور کہاں کنارا گیا

بس ایک جان بچی ہے چلو نثار کریں
سنا ہے نام ہمارا ہی پھر پکارا گیا

زمیں پہ اس کی خبر ہے کوئی نہ ہے پروا
فلک سے ٹوٹ گیا تو کہاں ستارا گیا

صبا کے ہاتھ شب ہجر کے گزرتے ہی
تمہاری سمت میں اشکوں کا گوشوارا گیا

وہ پیڑ ٹوٹ گیا تو مجھے کچھ ایسا لگا
کہ جیسے اپنی محبت کا استعارا گیا

ہر ایک نقش تری یاد سے منور تھا
میں اپنے ماضی میں کل رات جب دوبارہ گیا