جو معبد میں دیا جلانے آتی تھی
وہ لڑکی کیوں اندھیاروں کی نذر ہوئی
وہ جس نے اشکوں سے ہار نہیں مانی
کس خاموشی سے دریا میں ڈوب گئی
ریت پہ میرے اور تمہارے قدموں کی
اک تحریر تھی سو وہ دریا برد ہوئی
لفظوں کے شہزادے کا رستہ دیکھے
جنگل میں رہنے والی بھولی لڑکی
تیری مخبر تیری ہی ہم راز کنیز
میری دشمن میری ایک سہیلی تھی
بھوک ہی پالے اپنی کوکھ میں میری ماں
بانجھ دعائیں محنت والے ہاتھوں کی
وہ گھر جس کے طاق میں دیا نہ تھا لیکن
صحن میں ایک کنڈاری رکھی رہتی تھی

غزل
جو معبد میں دیا جلانے آتی تھی
عشرت آفریں