EN हिंदी
جو لذت آشناۓ درد ہجراں ہوتے جاتے ہیں | شیح شیری
jo lazzat-e-ashna-e-dard-e-hijran hote jate hain

غزل

جو لذت آشناۓ درد ہجراں ہوتے جاتے ہیں

مظفر احمد مظفر

;

جو لذت آشناۓ درد ہجراں ہوتے جاتے ہیں
سر کوئے تمنا وہ غزل خواں ہوتے جاتے ہیں

سفینہ ڈوب ہی جائے گا اب بحر تلاطم میں
حباب آسا حریف موج طوفاں ہوتے جاتے ہیں

وہی بنتے ہیں باعث دوستو بیتابیٔ دل کا
محبت میں جو نزدیک رگ جاں ہوتے جاتے ہیں

متاع دل جنہیں سونپی تھی میں نے راہ الفت میں
تعجب ہے وہی غارت گر جاں ہوتے جاتے ہیں

دبستان محبت میں اک ایسا دور آتا ہے
کہ اوراق کتاب دل پریشاں ہوتے جاتے ہیں

اثر باد فنا ہونے لگا ہے جذبۂ دل کا
وہ مجھ کو دفن کر کے اب پشیماں ہوتے جاتے ہیں

جنوں میں بھی مظفرؔ ہے ہمیں پاس ادب ہر دم
بقدر ظرف محو‌ حسن جاناں ہوتے جاتے ہیں