EN हिंदी
جو کچھ کہ تم سیں مجھے بولنا تھا بول چکا | شیح شیری
jo kuchh ki tum sin mujhe bolna tha bol chuka

غزل

جو کچھ کہ تم سیں مجھے بولنا تھا بول چکا

سراج اورنگ آبادی

;

جو کچھ کہ تم سیں مجھے بولنا تھا بول چکا
بیان عشق کے طومار کوں میں کھول چکا

ازل سیں مجھ کوں دیا درد صانع تقدیر
مرے نصیب کے شربت میں زہر گھول چکا

جنوں کے شہر میں نہیں کم عیار کوں حرمت
میں نقد قلب کوں کانٹے میں دل کے تول چکا

مجھے خرید کیے تم نے کم نگاہی سیں
کمینہ بندۂ بے زر کا آج مول چکا

نہیں رہا سخن آب دار کا موتی
سراجؔ طبع کے سب جوہروں کوں رول چکا