جو کچھ بھی میرے پاس تھی دولت نگل گئی
میری انا کو تیری محبت نگل گئی
تصویر کہہ رہی تھی مصور کی داستاں
منظر کشی کو آنکھ کی حیرت نگل گئی
حصے میں میرے آئی ہمیشہ شب فراق
ہر لمحۂ نشاط کو ظلمت نگل گئی
میں نے جلائی آگ عدو کے لیے مگر
میرا وجود آگ کی حدت نگل گئی
میں بد نہیں ہوں بس یونہی بدنام ہو گیا
کردار میرا جہل کی تہمت نگل گئی
کل آئنے میں خود کو میں بے شکل کیوں لگا
کیا گردش جہاں مری صورت نگل گئی
ایمان اپنے ہاتھوں میں محفوظ تھا کہاں
جو بچ گیا تھا اس کو بھی بدعت نگل گئی
غربت نے میرے شہر کا نقشہ بدل دیا
غیرت کو زندہ رہنے کی چاہت نگل گئی
اب فن شاعری میں تغزل کہاں بچا
یعنی غزل کے حسن کو جدت نگل گئی

غزل
جو کچھ بھی میرے پاس تھی دولت نگل گئی
شہزاد حسین سائل