جو خود نہ اپنے ارادے سے بدگماں ہوتا
قدم اٹھاتے ہی منزل پہ کارواں ہوتا
فریب دے کے تغافل وبال جاں ہوتا
جو اک لطیف تبسم نہ درمیاں ہوتا
دماغ عرش پہ ہے تیرے در کی ٹھوکر سے
نصیب ہوتا جو سجدہ تو میں کہاں ہوتا
قفس سے دیکھ کے گلشن ٹپک پڑے آنسو
جہاں نظر ہے یہاں کاش آشیاں ہوتا
ہمیں نے ان کی طرف سے منا لیا دل کو
وہ کرتے عذر تو یہ اور بھی گراں ہوتا
سمجھ تو یہ کہ نہ سمجھے خود اپنا رنگ جنوں
مزاج یہ کہ زمانہ مزاج داں ہوتا
بھری بہار کے دن ہیں خیال آ ہی گیا
اجڑ نہ جاتا تو پھولوں میں آشیاں ہوتا
حسین قدموں سے لپٹی ہوئی کشش تھی جہاں
وہیں تھا دل بھی رضاؔ اور دل کہاں ہوتا

غزل
جو خود نہ اپنے ارادے سے بدگماں ہوتا
رضا لکھنوی