جو خود کو پائیں تو پھر دوسرا تلاش کریں
اس اک حیات میں اب اور کیا تلاش کریں
ستارہ گو ہے یہ شب اس کو غور سے سن لیں
اور اس کا دن جو کہیں کھو گیا تلاش کریں
ہم اپنی بات کو دیوار ہی میں چنوا دیں
نظر شبیہ سماعت صدا تلاش کریں
ہے باب جاں پہ رکا عکس میہماں آ کر
سر وجود کوئی آئنہ تلاش کریں
ہوا میں زہر ہے صحرا کا یا سمندر کا
یہ علم ہو تو کوئی بدرقہ تلاش کریں
غزل
جو خود کو پائیں تو پھر دوسرا تلاش کریں
علی اکبر عباس