جو کھلی چمن میں نئی کلی تو وہ جشن صوت و صدا ہوا
کہیں بلبلیں ہوئیں نغمہ زن کہیں رقص باد صبا ہوا
کوئی پھول خوشبو سے چور سا کوئی رنگ حلقہ نور سا
کوئی حسن غیرت حور سا ترے نام سارا لکھا ہوا
وہ بچھڑ گیا تو پتہ چلا کہ تھا سخت کتنا یہ حادثہ
گیا نور جیسے چراغ کا کہ بدن سے عکس جدا ہوا
جو سوار راہ زیاں کے تھے کہیں نام اب کے نہ کر سکے
نہ جنوں میں سرخ ہوئی زمیں نہ سکوں میں دشت ہرا ہوا
مری جنگ میرے ہی ساتھ تھی کہ حریف بھی تھا حلیف بھی
کبھی دوستوں میں گھرا ہوا کبھی دشمنوں سے ملا ہوا
وہ ہوا چلی کہ مرے چمن ہوئے راکھ اور دھویں کے بن
کہ ہرے شجر بھی سلگ اٹھے یہ بھری بہار میں کیا ہوا
غزل
جو کھلی چمن میں نئی کلی تو وہ جشن صوت و صدا ہوا
منظور ہاشمی