جو کرتے تھے الٹا سیدھا کرتے تھے
ہم پتھر پہ دریا پھینکا کرتے تھے
اس جنگل کے پیڑوں سے میں واقف ہوں
گر جاتے تھے جس پر سایہ کرتے تھے
میں بستی میں تتلی پکڑا کرتا تھا
باقی سارے لوگ تو جھگڑا کرتے تھے
کچھ بچے سیلابوں میں بہہ جاتے ہیں
ہم پلکوں سے دریا روکا کرتے تھے
جاؤ کوئی تار وار نہیں گرتا
ہم ہی چھت سے جگنو پھینکا کرتے تھے
سب روحیں ذہنوں پر کپڑا رکھتی تھیں
ہم بس جسموں کا ہی پردہ کرتے تھے
روز مشاہد رہتے تھے ہم شام تلک
پھر سورج کا ماتھا چوما کرتے تھے
میں اس آگ میں جسم جلا کر آیا تھا
جس میں سارے آنکھیں سیکا کرتے تھے
غزل
جو کرتے تھے الٹا سیدھا کرتے تھے
نویش ساہو