جو کل نہ تھا وہ آج ہے اے ہم شبیہ من
اب اس کا کیا علاج ہے اے ہم شبیہ من
آنکھوں میں اشک لب پہ ہنسی تس پہ بے حسی
یہ کیسا امتزاج ہے اے ہم شبیہ من
ہنس کے ملو ہر ایک سے جس حال میں ملو
اس شہر کا رواج ہے اے ہم شبیہ من
دیکھا ہے کوئی خواب عزیزان شہر نے
کے سال کا اناج ہے اے ہم شبیہ من
سب لوگ مطمئن ہیں کوئی بے کلی نہیں
یہ کون سا سماج ہے اے ہم شبیہ من
میں نے کہا نہ تھا کہ یہاں قدر دل نہیں
کیوں اس پہ بد مزاج ہے اے ہم شبیہ من
غزل
جو کل نہ تھا وہ آج ہے اے ہم شبیہ من
مدحت الاختر