جو کیف عشق سے خالی ہو زندگی کیا ہے
شگفتگی نہ ملے جس میں وہ کلی کیا ہے
مری نگاہ میں ہے ان کا عارض روشن
یہ کہکشاں یہ ستارے یہ چاندنی کیا ہے
جمال یار کی رعنائیوں میں گم ہے نظر
مجھے یہ ہوش کہاں ہے کہ زندگی کیا ہے
اٹھا بھی جام کہ دنیا ترے قدم چومے
یہ مے کدہ ہے یہاں عیش کی کمی کیا ہے
تمہاری یاد میں بیٹھے ہیں دل کو بہلانے
صنم تراشی و ذوق مصوری کیا ہے
نفس نفس پہ یہ احساس غم یہ مجبوری
خدا گواہ قیامت ہے زندگی کیا ہے
نگاہ شوق کے اٹھنے کی دیر ہے شاعرؔ
وہ بیقرار نہ آئے تو بات ہی کیا ہے
غزل
جو کیف عشق سے خالی ہو زندگی کیا ہے
شاعر فتح پوری