جو کہیں تھا ہی نہیں اس کو کہیں ڈھونڈھنا تھا
ہم کو اک وہم کے جنگل میں یقیں ڈھونڈھنا تھا
پہلے تعمیر ہمیں کرنا تھا اچھا سا مکاں
پھر مکاں کے لئے اچھا سا مکیں ڈھونڈھنا تھا
سب کے سب ڈھونڈتے پھرتے تھے اسے بن کے ہجوم
جس کو اپنے میں کہیں اپنے تئیں ڈھونڈھنا تھا
جستجو کا اک عجب سلسلہ تا عمر رہا
خود کو کھونا تھا کہیں اور کہیں ڈھونڈھنا تھا
نیند کو ڈھونڈ کے لانے کی دوائیں تھیں بہت
کام مشکل تو کوئی خواب حسیں ڈھونڈھنا تھا
دل بھی بچے کی طرح ضد پہ اڑا تھا اپنا
جو جہاں تھا ہی نہیں اس کو وہیں ڈھونڈھنا تھا
ہم بھی جینے کے لئے تھوڑا سکوں تھوڑا سا چین
ڈھونڈ سکتے تھے مگر ہم کو نہیں ڈھونڈھنا تھا
غزل
جو کہیں تھا ہی نہیں اس کو کہیں ڈھونڈھنا تھا
راجیش ریڈی