جو جو شعور ذہن پہ آتا چلا گیا
دل کلفتوں کے داغ مٹاتا چلا گیا
لا کر بہار نو کے گل ندرت خیال
صحرا کو میں چمن سا بناتا چلا گیا
اللہ کا یہ فضل ہے مجھ پہ کہ بحر علم
کوزے سے میرے دل میں سماتا چلا گیا
الفاظ کے گہر سے غزل کی زمیں کو میں
جیسے فلک نژاد بنتا چلا گیا
تار نفس پہ چھیڑ کے اک نغمۂ حیات
میں آگہی کے ساز پہ گاتا چلا گیا
الفت کی راہ کر کے زمانے پہ آشکار
احسنؔ میں خار راہ ہٹاتا چلا گیا
غزل
جو جو شعور ذہن پہ آتا چلا گیا
احسن لکھنوی