جو جھٹلاتا رہا ہے زندگی کو
ذرا پہچان لیں اس آدمی کو
اجالے بانٹتی پھرتی ہے دنیا
سیاہی سے الجھتی روشنی کو
ازل سے گونجتا منظر ہے ہستی
صدا دو جسم کی بے چہرگی کو
نہ دیکھا تم نے سڑکوں سے گزرتے
بکھرتی سانس لیتی زندگی کو
نہیں مہلت کہ میں خورشید دیتا
تری آنکھوں کی بجھتی روشنی کو
جو ہے اس شہر میں منکر سخن کا
سناؤ یہ غزل ثاقبؔ اسی کو

غزل
جو جھٹلاتا رہا ہے زندگی کو
میر نقی علی خاں ثاقب