جو جھک کے ملتے تھے جلسوں میں مہرباں کی طرح
ہوئے ہیں سر پہ مسلط وہ آسماں کی طرح
مجھے جو کھولو تو ساحل قریب کر دوں گا
سمندروں میں میں رہتا ہوں بادباں کی طرح
تمہارے شہر کے جبری نظام میں کچھ لوگ
کبھی ہنسے بھی تو آواز تھی فغاں کی طرح
ہے تیز دھوپ سفر لمبا پر تمہاری یاد
ہے ایک سایہ مرے سر پہ سائباں کی طرح
نہ کوئی پتہ ہرا ہے نہ کوئی پھول کھلا
بہار بھی مرے گھر آئی ہے خزاں کی طرح
نہ صاف ذہن نہ چہرے کے خال و خط روشن
فضاؤں میں ہے ہر اک شے دھواں دھواں کی طرح
جہاں بھی جاؤں میں وہ دشت ہو کہ دریا ہو
دعائیں ماں کی چلیں ساتھ پاسباں کی طرح
نظرؔ کے نام کا اک شخص کچھ جنونی سا
اکیلا دشت میں چلتا ہے کارواں کی طرح
غزل
جو جھک کے ملتے تھے جلسوں میں مہرباں کی طرح
بدنام نظر