جو جل اٹھی ہے شبستاں میں یاد سی کیا ہے
یہ جھلملاہٹیں کیا ہیں یہ روشنی کیا ہے
کسی سے ترک تعلق کے بعد بھی ملنا
برا ضرور ہے لیکن کبھی کبھی کیا ہے
اب اپنے حال پہ ہم دھیان ہی نہیں دیتے
نہ جانے بے خبری ہے کہ آگہی کیا ہے
یہی سوال نہیں ہے فقط کہ ہم کیا ہیں
یہ کائنات ہے کیا اور زندگی کیا ہے
ہنسی جو دیکھ رہے ہو ہمارے ہونٹوں پر
زبان حال سے اک چیخ ہے ہنسی کیا ہے
شعورؔ ابھی سے یہ خوش فہمیاں یہ امیدیں
ابھی تو صرف ملاقات ہے ابھی کیا ہے
غزل
جو جل اٹھی ہے شبستاں میں یاد سی کیا ہے
انور شعور