EN हिंदी
جو جل اٹھی ہے شبستاں میں یاد سی کیا ہے | شیح شیری
jo jal uThi hai shabistan mein yaad si kya hai

غزل

جو جل اٹھی ہے شبستاں میں یاد سی کیا ہے

انور شعور

;

جو جل اٹھی ہے شبستاں میں یاد سی کیا ہے
یہ جھلملاہٹیں کیا ہیں یہ روشنی کیا ہے

کسی سے ترک تعلق کے بعد بھی ملنا
برا ضرور ہے لیکن کبھی کبھی کیا ہے

اب اپنے حال پہ ہم دھیان ہی نہیں دیتے
نہ جانے بے خبری ہے کہ آگہی کیا ہے

یہی سوال نہیں ہے فقط کہ ہم کیا ہیں
یہ کائنات ہے کیا اور زندگی کیا ہے

ہنسی جو دیکھ رہے ہو ہمارے ہونٹوں پر
زبان حال سے اک چیخ ہے ہنسی کیا ہے

شعورؔ ابھی سے یہ خوش فہمیاں یہ امیدیں
ابھی تو صرف ملاقات ہے ابھی کیا ہے