EN हिंदी
جو اس چمن میں یہ گل سرو و یاسمن کے ہیں | شیح شیری
jo is chaman mein ye gul sarw-o-yasman ke hain

غزل

جو اس چمن میں یہ گل سرو و یاسمن کے ہیں

شاہد کمال

;

جو اس چمن میں یہ گل سرو و یاسمن کے ہیں
یہ جتنے رنگ ہیں سب تیرے پیرہن کے ہیں

یہ سب کرشمۂ عرض ہنر اسی کے ہیں
گلوں میں نقش ترے ہی لب و دہن کے ہیں

طبیعتوں میں عجب رنگ اجنبیت ہے
یہ شاہ پارے تو سب تیرے ارض فن کے ہیں

ہوس میں عشق میں تہذیب تربیت کا ہے فرق
وگرنہ دونوں اسی مکتب بدن کے ہیں

ہمیں تو لا کے یہاں پر بسا دیا گیا ہے
خبر ہے ملک عدم ہم ترے وطن کے ہیں

امیر شہر تو اپنی قبائے زر کو بھی دیکھ
سب اس میں تار مرے ریزۂ کفن کے ہیں

کہاں اکیلے مری خواہشوں کا دم نکلا
نشاں بھی اس کے گلے پر مری گھٹن کے ہیں

خود اپنے شہر کی تہذیب بھول بیٹھے ہیں
یہ کون لوگ ہیں اور جانے کیسے بن کے ہیں

مرے حریف مرا احترام کرتے ہیں
سخن وروں میں بھی چرچے مرے سخن کے ہیں