جو انساں باریاب پردۂ اسرار ہو جائے
تو اس باطل کدے میں زندگی دشوار ہو جائے
یہ دنیائے وفا دنیائے بے آزار ہو جائے
مجھی پر کیوں نہ تکمیل جفائے یار ہو جائے
جو ظلمت میں بھی تنویر حقیقت دیکھنا چاہے
وہ میری طرح پچھلی رات سے بیدار ہو جائے
غرور حسن بھی میرے لئے جزو ادا دائرے
مرا احساس بھی تیرے لئے پندار ہو جائے
غم پنہاں سے دم گھٹتا ہے اے سیمابؔ کیا کہئے
خدا ایسا کرے یہ قابل اظہار ہو جائے
غزل
جو انساں باریاب پردۂ اسرار ہو جائے
سیماب اکبرآبادی