جو ہوتا آہ تری آہ بے اثر میں اثر
تو کچھ تو ہوتا دل شوخ فتنہ گر میں اثر
بس اک نگاہ میں معشوق چھین لیں ہیں دل
خدا نے ان کی دیا ہے عجب نظر میں اثر
نہ چھوڑی غم نے مرے اک جگر میں خون کی بوند
کہاں سے اشک کا ہو کہیے چشم تر میں اثر
ہو اس کے ساتھ یہ بے التفاتی گل کیوں
جو عندلیب کے ہو نالۂ سحر میں اثر
کسی کا قول ہے سچ سنگ کو کرے ہے موم
رکھا ہے خاص خدا نے یہ سیم و زر میں اثر
جو آہ نے فلک پیر کو ہلا ڈالا
تو آپ ہی کہیے کہ ہے گا یہ کس اثر میں اثر
جو دیکھ لے تو جہنم کی پھیرے بندھ جائے
ہے میری آہ کے وہ ایک اک شرر میں اثر
بگاڑیں چرخ سے ہم عیشؔ کس بھروسے پر
نہ آہ میں ہے نہ سوز دل و جگر میں اثر
غزل
جو ہوتا آہ تری آہ بے اثر میں اثر
عیش دہلوی