جو ہو سکے تو کبھی اتنی مہربانی کر
اڑا کے خاک مری مجھ کو آسمانی کر
پھر اس کے بعد خدا جانے کب میسر ہوں
یہ چند لمحے محبت کے جاودانی کر
بزور تیغ حکومت کیا نہیں کرتے
جو ہو سکے تو دلوں پر بھی حکمرانی کر
اے روشنی کے پیمبر کہ اے نقیب نور
لہو سے اپنے چراغوں کی پاسبانی کر
میں آئنہ ہوں نہ اترے کہیں ترا چہرہ
نہ اپنے آپ پہ اترا نہ لن ترانی کر
میں چل پڑا ہوں قدم سے قدم ملا میرے
رفاقتوں کے سفر میں نہ آنا کانی کر
ہمارے لمس سے پڑتی ہے جان مردوں میں
ہمارے ہاتھ پہ بیعت اے زندگانی کر
نہ مصلحت کی ترازو میں تول لفظوں کو
جو دل کہے وہی ہونٹوں سے ترجمانی کر
نہ یاد کر انہیں آصف وہ پل جو بیت گئے
یہیں پہ درد بھری ختم وہ کہانی کر
غزل
جو ہو سکے تو کبھی اتنی مہربانی کر
اقبال آصف