جو ہو سکے تو آپ بھی کچھ کر دکھائیے
عمر عزیز اپنی نہ یوں ہی گنوائیے
دن کو ٹھٹھرتی دھوپ میں ٹانگیں پساریے
راتوں کو جاگ جاگ کے محفل سجائیے
چائے کے ایک کپ کا یہی ہے معاوضہ
یاروں کو عہد رفتہ کے قصے سنائیے
نام و نمود کی ہو اگر آپ کو ہوس
جیسے بھی ہو کسی طرح بس چھپتے جائیے
وہ اجنبی بھی آشنا بن جائے گا متینؔ
اس کی گلی کے روز ہی چکر لگائیے

غزل
جو ہو سکے تو آپ بھی کچھ کر دکھائیے
سید فضل المتین