EN हिंदी
جو ہو سکے تو آپ بھی کچھ کر دکھائیے | شیح شیری
jo ho sake to aap bhi kuchh kar dikhaiye

غزل

جو ہو سکے تو آپ بھی کچھ کر دکھائیے

سید فضل المتین

;

جو ہو سکے تو آپ بھی کچھ کر دکھائیے
عمر عزیز اپنی نہ یوں ہی گنوائیے

دن کو ٹھٹھرتی دھوپ میں ٹانگیں پساریے
راتوں کو جاگ جاگ کے محفل سجائیے

چائے کے ایک کپ کا یہی ہے معاوضہ
یاروں کو عہد رفتہ کے قصے سنائیے

نام و نمود کی ہو اگر آپ کو ہوس
جیسے بھی ہو کسی طرح بس چھپتے جائیے

وہ اجنبی بھی آشنا بن جائے گا متینؔ
اس کی گلی کے روز ہی چکر لگائیے