جو ہو سکا نہیں درپیش اسے بناتا ہوا
میں خود بھی بیت گیا راستے بناتا ہوا
سنور رہا تھا کوئی آئنہ نشیں جب میں
فگار دست ہوا آئنے بناتا ہوا
بنا رہا ہوں تجھے میں کہ ہو مری تکمیل
سنورتا جاتا ہوں میں خود تجھے بناتا ہوا
وہ ایک شکل جو ہے اس کا مرکزی کردار
اجڑ گیا ہے یہ منظر اسے بناتا ہوا

غزل
جو ہو سکا نہیں درپیش اسے بناتا ہوا
سید کاشف رضا