EN हिंदी
جو حوصلہ ہو تو ہلکی ہے دوپہر کی دھوپ | شیح شیری
jo hausla ho to halki hai dopahar ki dhup

غزل

جو حوصلہ ہو تو ہلکی ہے دوپہر کی دھوپ

ظہیر صدیقی

;

جو حوصلہ ہو تو ہلکی ہے دوپہر کی دھوپ
تنک مزاجوں کو لگتی ہے یوں قمر کی دھوپ

مرے جنون قدم نے بڑا ہی کام کیا
جو گرد راہ بڑھی کم ہوئی سفر کی دھوپ

صفائے شیشۂ عارض پہ کھل گئی ہے شفق
جو ان کے رخ پہ پڑی ہے مری نظر کی دھوپ

شب وصال کی یہ شام بھی ہے رشک سحر
مہک مہک کے سرکتی ہے بام و در کی دھوپ

بجھی تو گوہر مژگان یار میں چمکی
خوشا نصیب مری عمر مختصر کی دھوپ

ابھی سے شکوۂ حدت ابھی تپش کا گلا
ابھی تو تیرے مقابل ہوئی سحر کی دھوپ

ظہیرؔ تیری جبیں کیوں عرق عرق ہے ابھی
ابھی تو راہ میں باقی ہے دوپہر کی دھوپ