جو حسیں حسن تغافل سے گزر جاتا ہے
چاہنے والوں کے وہ دل سے اتر جاتا ہے
جس طرف صحن چمن سے وہ گزر جاتا ہے
رنگ پھولوں کا کہیں اور نکھر جاتا ہے
آ بھی جاؤ کہ دعا مانگ رہا ہوں کب سے
بات رہ جاتی ہے اور وقت گزر جاتا ہے
عمر بھر کروٹیں لیتا ہے وہ پیکان نظر
آنکھ کی راہ سے جو دل میں اتر جاتا ہے
میرے کہنے سے ذرا زلف سنوارو تو سہی
لوگ کہتے ہیں مقدر بھی سنور جاتا ہے
بحر غم میں تیری یادوں کا سہارا لے کر
غم کا طوفاں بھی میرے سر سے گزر جاتا ہے
یک بہ یک کیسے بھلا دوں انہیں جعفرؔ دل سے
جاتے جاتے ہی محبت کا اثر جاتا ہے
غزل
جو حسیں حسن تغافل سے گزر جاتا ہے
جعفر عباس صفوی