جو ہر قدم پہ اندھیروں سے لڑنے والے ہیں
ہمارے ساتھ محبت کے وہ اجالے ہیں
وہ جانتے ہیں جو تاریخ پڑھنے والے ہیں
ہمیں نے گردش دوراں کے بل نکالے ہیں
بنائے پھرتے ہیں ہم خود کو خوش لباس مگر
ہمارے گھر میں ابھی مکڑیوں کے جالے ہیں
خلوص و ربط و محبت جنہیں میسر ہے
وہ لوگ کون سی دنیا کے رہنے والے ہیں
دیار غیر میں تم کیوں تلاش کرتے ہو
ہمارے شہر میں کیا اہل فن کے لالے ہیں
جنہیں یہ اہل بصیرت سمیٹ لائے تھے
وہ حادثے کسی آشفتہ سر نے ٹالے ہیں
ہزار دور ترقی کے بعد بھی نصرتؔ
قدم قدم پہ ابھی میرؔ کے حوالے ہیں

غزل
جو ہر قدم پہ اندھیروں سے لڑنے والے ہیں
نصرت صدیقی