جو ہے چشمہ اسے سراب کرو
شہر تشنہ میں انقلاب کرو
مسکرانے کا فن تو بعد کا ہے
پہلے ساعت کا انتخاب کرو
اب کے تعبیر مسئلہ نہ رہے
یہ جو دنیا ہے اس کو خواب کرو
اور پکنے دو عشق کی مٹی
پار عجلت میں مت چناب کرو
عہد نو کے عجب تقاضے ہیں
جو ہے خوشبو اسے گلاب کرو
یوں خوشی کی ہوس نہ جائے گی
ایک اک غم کو بے نقاب کرو
ہرسنگاروں سے بولتی ہے زمیں
اب کی رت میں مجھے کتاب کرو
پہلے پوچھو سوال اپنے تئیں
پھر خلا سے طلب جواب کرو

غزل
جو ہے چشمہ اسے سراب کرو
بکل دیو